Monday, October 25, 2010

مسجد اور والدین کی محبت


ميں اور ميرے ماموں نے حسب معمول مکہ حرم شريف ميں نماز جمعہ ادا کي اورگھر کو واپسي کيلئے روانہ ہوئے۔ شہر سے باہر نکل کر سڑک کے کنارے کچھ فاصلے پر ايک بے آباد سنسان مسجد آتي ہے، مکہ شريف کو آتے جاتے سپر ہائي وے سے بارہا گزرتے ہوئے اس جگہ اور اس مسجد پر ہماري نظر پڑتي رہتي ہے اور ہم ہميشہ ادھر سے ہي گزر کر جاتے ہيں مگر آج جس چيز نے ميري توجہ اپني طرف کھينچ لي تھي وہ تھي ايک نيلے رنگ کي فورڈ کار جو مسجد کي خستہ حال ديوار کے ساتھ کھڑي تھي، چند لمحے تو ميں سوچتا رہا کہ اس کار کا اس سنسان مسجد کے پاس کيا کام! مگر اگلے لمحے ميں نے کچھ جاننے کا فيصلہ کرتے ہوئے اپني کار کو رفتار کم کرتے ہوئے مسجد کي طرف جاتي کچي سائڈ روڈ پر ڈال ديا، ميرا ماموں جو عام طور پر واپسي کا سفر غنودگي ميں گزارتا ہے اس نے بھي اپني اپني آنکھوں کو وا کرتے ہوئے ميري طرف حيرت سے ديکھتے ہوئے پوچھتا، کيا بات ہے، ادھر کيوں جا رہے ہو؟



ہم نے اپني کار کو مسجد سے دور کچھ فاصلے پر روکا اور پيدل مسجد کي طرف چلے، مسجد کے نزديک جانے پر اندر سے کسي کي پرسوز آواز ميں سورۃ الرحمٰن تلاوت کرنے کي آواز آ رہي تھي، پہلے تو يہي اردہ کيا کہ باہر رہ کر ہي اس خوبصورت تلاوت کو سنيں ، مگر پھر يہ سوچ کر کہ اس بوسيدہ مسجد ميں جہاں اب پرندے بھي شايد نہ آتے ہوں، اند جا کر ديکھنا تو چاہيئے کہ کيا ہو رہا ہے؟



ہم نے اند جا کر ديکھا ايک نوجوان مسجد ميں جاء نماز بچھائے ہاتھ ميں چھوٹا سا قرآن شريف لئے بيٹھا تلاوت ميں مصروف ہے اور مسجد ميں اس کے سوا اور کوئي نہيں ہے۔ بلکہ ہم نے تو احتياطا ادھر ادھر ديکھ کر اچھي طرح تسلي کر لي کہ واقعي کوئي اور موجود تو نہيں ہے۔



ميں نے اُسے السلام و عليکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہا، اس نے نطر اُٹھا کر ہميں ديکھا، صاف لگ رہا تھا کہ کسي کي غير متوقع آمد اس کے وہم و گمان ميں بھي نہ تھي، حيرت اس کے چہرے سے عياں تھي۔



اُس نے ہميں جوابا وعليکم السلام و عليکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہا۔



ميں نے اس سے پوچھا، عصر کي نماز پڑھ لي ہے کيا تم نے، نماز کا وقت ہو گيا ہے اور ہم نماز پڑھنا چاہتے ہيں۔



اُس کے جواب کا انتظار کئے بغير ميں نے اذان دينا شروع کي تو وہ نوجوان قبلہ کي طرف رخ کئے مسکرا رہا تھا، کس بات پر يا کس لئے يہ مسکراہٹ، مجھے پتہ نہيں تھا۔ عجيب معمہ سا تھا۔



پھر اچانک ہي اس نوجوان نے ايک ايسا جملہ بولا کہ مجھے اپنے اعصاب جواب ديتے نظر آئے،



نوجوان کسي کو کہہ رہا تھا؛
مبارک ہو، آج تو باجماعت نماز ہوگي۔



ميرے ماموں نے بھي مجھے تعجب بھري نظروں سے ديکھا جسے ميں نظر انداز کر تے ہوئے اقامت کہنا شروع کردي۔



جبکہ ميرا دماغ اس نوجوان کے اس فقرے پر اٹکا ہوا تھا کہ
مبارک ہو، آج تو باجماعت نماز ہوگي۔



دماغ ميں بار بار يہي سوال آ رہا تھا کہ يہ نوجوان آخر کس سے باتيں کرتا ہے، مسجد ميں ہمارے سوا کوئي بندہ و بشر نہيں ہے، مسجد فارغ اور ويران پڑي ہے۔ کيا يہ پاگل تو نہيں ہے؟



ميں نے نماز پڑھا کر نوجوان کو ديکھا جو ابھي تک تسبيح ميں مشغول تھا۔



ميں نے اس سے پوچھا، بھائي کيا حال ہے تمہارا؟ جسکا جواب اس نے ــ’بخير و للہ الحمد‘ کہہ کر ديا۔



ميں نے اس سے پھر کہا، اللہ تيري مغفرت کرے، تو نے ميري نماز سے توجہ کھينچ لي ہے۔ ’وہ کيسے‘ نوجوان نے حيرت سے پوچھا۔



ميں نے جواب ديا کہ جب ميں اقامت کہہ رہا تھا تو نے ايک بات کہي
مبارک ہو، آج تو باجماعت نماز ہوگي۔



نوجوان نے ہنستے ہوئے جواب ديا کہ اس ميں ايسي حيرت والي کونسي بات ہے؟



ميں نے کہا، ٹھيک ہے کہ اس ميں حيرت والي کوئي بات نہيں ہے مگر تم بات کس سے کر رہے تھے آخر؟



نوجوان ميري بات سن کر مسکرا تو ضرور ديا مگر جواب دينے کي بجائے اس نے اپني نظريں جھکا کر زمين ميں گاڑ ليں، گويا سوچ رہا ہو کہ ميري بات کا جواب دے يا نہ دے۔



ميں نے اپني بات کو جاري رکھتے ہوئے کہا کہ مجھے نہيں لگتا کہ تم پاگل ہو، تمہاري شکل بہت مطمئن اور پر سکون ہے، اور ماشاءاللہ تم نے ہمارے ساتھ نماز بھي ادا کي ہے۔



اس بار اُس نے نظريں اُٹھا کر مجھے ديکھا اور کہا؛ ميں مسجد سے بات کر رہا تھا۔



اس کي بات ميرے ذہن پر بم کي کي طرح لگي، اب تو ميں سنجيدگي سے سوچنے لگا کہ يہ شخص ضرور پاگل ہے۔



ميں نے ايک بار پھر اس سے پوچھا، کيا کہا ہے تم نے؟ تم اس مسجد سے گفتگو کر رہے تھے؟ تو پھر کيا اس مسجد نے تمہيں کوئي جواب ديا ہے؟



اُس نے پھرمسکراتے ہوئے ہي جواب ديا کہ مجھے ڈر ہے تم کہيں مجھے پاگل نہ سمجھنا شروع کر دو۔



ميں نے کہا، مجھے تو ايسا ہي لگ رہا ہے، يہ فقط پتھر ہيں، اور پتھر نہيں بولا کرتے۔



اُس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپکي بات ٹھيک ہے يہ صرف پتھر ہيں۔



اگر تم يہ جانتے ہو کہ يہ صرف پتھر ہيں جو نہ سنتے ہيں اور نہ بولتے ہيں تو باتيں کس سے کيں؟



نوجوان نے نظريں پھر زميں کي طرف کر ليں، جيسے سوچ رہا ہو کہ جواب دے يا نہ دے۔



اور اب کي بار اُس نے نظريں اُٹھائے بغير ہي کہا کہ ؛



ميں مسجدوں سے عشق کرنے والا انسان ہوں، جب بھي کوئي پراني، ٹوٹي پھوٹي يا ويران مسجد ديکھتا ہوں تو اس کے بارے ميں سوچتا ہوں



مجھے اُنايام خيال آجاتا ہے جب لوگ اس مسجد ميں نمازيں پڑھا کرتے ہونگے۔



پھر ميں اپنے آپ سے ہي سوال کرتا ہوں کہ اب يہ مسجد کتنا شوق رکھتي ہوگي کہ کوئي تو ہو جو اس ميں آکر نماز پڑھے، کوئي تو ہو جو اس ميں بيٹھ کر اللہ کا ذکر کرے۔ ميں مسجد کي اس تنہائي کے درد کو محسوس کرتا ہوں کہ کوئي تو ہو جو ادھر آ کر تسبيح و تحليل کرے، کوئي تو ہو جو آ کر چند آيات پڑھ کر ہي اس کي ديواروں کو ہلا دے۔



ميں تصور کر سکتا ہوں کہ يہ مسجد کس قدر اپنے آپ کو باقي مساجد ميں تنہا پاتي ہوگي۔



کس قدر تمنا رکھتي ہوگي کہ کوئي آکر چند رکعتيں اور چند سجدے ہي اداکر جائے اس ميں۔



کوئي بھولا بھٹکا مسافر، يا راہ چلتا انسان آ کر ايک اذان ہي بلند کرد ے۔



پھر ميں خود ہي ايسي مسجد کو جواب ديا کرتا ہوں کہ اللہ کي قسم، ميں ہوں جو تيرا شوق پورا کرونگا۔



اللہ کي قسم ميں ہوں جو تيرے آباد دنوں جيسے ماحول کو زندہ کرونگا۔



پھر ميں ايسي مسجدميں داخل ہو کر دو رکعت پڑھتا ہوں اور قرآن شريف کے ايک سيپارہ کي تلاوت کرتا ہوں۔



ميرے بھائي، تجھے ميري باتيں عجيب لگيں گي، مگر اللہ کي قسم ميں مسجدوں سے پيار کرتا ہوں، ميں مسجدوں کا عاشق ہوں۔



ميري آنکھوں آنسوؤں سے بھر گئيں، اس بار ميں نے اپني نظريں زميں ميں ٹکا ديں کہ کہيں نوجوان مجھے روتا ہوا نہ ديکھ لے،



اُس کي باتيں۔۔۔۔۔ اُس کا احساس۔۔۔۔۔اُسکا عجيب کام۔۔۔۔۔اور اسکا عجيب اسلوب۔۔۔۔۔کيا عجيب شخص ہے جسکا دل مسجدوں ميں اٹکا رہتا ہے۔۔۔۔۔



ميرے پاس کہنے کيلئے اب کچھ بھي تو نہيں تھا۔



صرف اتنا کہتے ہوئے کہ، اللہ تجھے جزائے خير دے، ميں نے اسے سلام کيا، مجھے اپني دعاؤں ميں ياد رکھنا کہتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا۔



مگر ايک حيرت ابھي بھي باقي تھي۔



نوجوان نے پيچھے سے مجھے آواز ديتے ہوئے کہا تو ميں دروازے سے باہر جاتے جاتے رُک گيا،



نوجوان کي نگاہيں ابھي بھي جُھکي تھيں اور وہ مجھے کہہ رہا تھا کہ جانتے ہو جب ميں ايسي ويران مساجد ميں نماز پڑھ ليتا ہوں تو کيا دعا مانگا کرتا ہوں؟



ميں نے صرف اسے ديکھا تاکہ بات مکمل کرے۔



اس نے اپني بات کا سلسلہ جاري رکھتے ہوئے کہا ميں دعا مانگا کرتا ہوں کہ



’ اے ميرے پروردگار، اے ميرے رب! اگر تو سمجھتا ہے کہ ميں نے تيرے ذکر ، تيرے قرآن کي تلاوت اور تيري بندگي سے اس مسجد کي وحشت و ويرانگي کو دور کيا ہے تو اس کے بدلے ميں تو ميرے باپ کي قبر کي وحشت و ويرانگي کو دور فرما دے، کيونکہ تو ہي رحم و کرم کرنے والا ہے‘



مجھے اپنے جسم ميں ايک سنسناہٹ سي محسوس ہوئي، اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا اور پھوٹ پھوٹ کر رو ديا۔



پيارے دوست، پياري بہن



کيا عجيب تھا يہ نوجوان، اور کيسي عجيب محبت تھي اسے والدين سے!



کسطرح کي تربيت پائي تھي اس نے؟



اور ہم کس طرح کي تربيت دے رہے ہيں اپني اولاد کو؟



ہم کتنے نا فرض شناس ہيں اپنے والدين کے چاہے وہ زندہ ہوں يا فوت شدہ؟



بس اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہميں نيک اعمال کي توفيق دے اور ہمارا نيکي پر خاتمہ کرے، اللھم آمين





ازراہ کرم! اگر آپ کو اس ايميل کا موضوع اچھا لگا ہے تو اپنے ان احباب کو بھيج ديجيئے جن کا آپ چاہتے ہيں بھلا اور فائدہ ہو جائے۔



مت بھولئے کہ نيکي کي ترغيب دلانے والے کو نيکي کرنے والے جتنا ثواب ملتا ہے۔





کيا کبھي آپ ميں سے کسي نے يہ سوچا ہے کہ موت کے بعد کيا ہوگا؟ جي ہاں موت کے بعد کيا ہوگا؟



تنگ و تاريک گڑھا، گھٹا ٹوپ اندھيرا، وحشت و ويرانگي، سوال و جواب، سزا و جزا، اور پھر جنت يا دوزخ۔


No comments:

Post a Comment